Wednesday, August 14, 2013

Independence Day

ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
میرے آباء نے جب اِس خاک پہ سر رکھا تھا

گھر سے نکلے تھے تو اِک دشتِ فنا کی صورت
راہ میں صرف سفر،صرف سفر رکھا تھا

دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی
اور اسباب میں بچھڑا ہوا گھر رکھا تھا

جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے
نسل در نسل اِسی خاک میں سر رکھا تھا

روح پر نقش تھے وہ نقش ابھی تک جن میں
رنگ بچپن کی کسی یاد نے بھر رکھا تھا

دل میں سر سبز تھے اُس پیڑ کے پتّے جس پر
دستِ قدرت نے ابھی پہلا ثمر رکھا تھا

کٹتے دیکھے تھے وہ برگد بھی ،جنہوں نے خود کو
مدتوں دھوپ کی بستی میں شجر رکھا تھا

جلتے دیکھے تھے وہ خود سوز محلّے جن میں
جانے کب سے کوئی خوابیدہ شرر رکھا تھا

چوڑیاں ٹوٹ کے بکھری تھیں ہر اک آنگن میں
اک کنواں تھا کہ تمنّاؤں سے بھر رکھا تھا

راہ تھی سُرخ گلابوں کے لہو سے روشن
پاؤں رکھا نہیں جاتا تھا، مگر رکھا تھا

قافلے ایک ہی سرحد کی طرف جاتے تھے
خواب کے پار کوئی خواب ِدگر رکھا تھا

تیرگی چیر کے آتے ہوئے رستوں کے لئے
ایک مہتاب سرِ راہ گزر رکھا تھا

اک حسیں چاند تھا اک سبز زمیں پر روشن
اک ستارے کو بھی آغوش میں بھر رکھا تھا

حرفِ اظہار میں حائل تھیں فصیلیں لیکن
رکھنے والے نے خموشی میں اثر رکھا تھا

لب تک آتے ہی نہ تھے حرف مناجاتوں کے
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا

چشمِ بینا میں وہ منظر ابھی تازہ ہے سعودؔ
میرے آباء نے جب اس خاک پہ سر رکھا تھا